امیری کا نشہ ہمیں ہے یاد اب تک وہ لڑکپن کا زمانہ تھا ہمارے بھائی بہنوں کے بچپن کا زمانہ تھا بہت چھوٹا سا اک کمرہ تھا جس کی چھت ٹپکتی تھی بڑی مشکل سے برساتوں کی ہر اک رات کٹتی تھی سلاتی تھی کبھی بہنوں کو ماں آنچل کے چلمن میں کبھی ابّو چُھپاتے لیتے تھے ہم کو اپنے دامن میں کبھی یوں بھی ہُوا باندھے سبھی نے پیٹ پر پتھر کبھی سب نےگزارہ کر لیا دو چار لقموں پر مگر سب کو محبت کے اثر نے باندھ رکھا تھا ہمیں مٹی کے اُس چھوٹے سے گھر نے باندھ رکھا تھا سبھی اک دوسرے کی چاہتوں میں گھُل کے رہتے تھے غریبی تھی مگر ہم لوگ سب مِل جُل کے رہتے تھے --------------------------------