Sunday, April 17, 2016

امیری کا نشہ

امیری کا نشہ ہمیں ہے یاد اب تک وہ لڑکپن کا زمانہ تھا ہمارے بھائی بہنوں کے بچپن کا زمانہ تھا بہت چھوٹا سا اک کمرہ تھا جس کی چھت ٹپکتی تھی بڑی مشکل سے برساتوں کی ہر اک رات کٹتی تھی سلاتی تھی کبھی بہنوں کو ماں آنچل کے چلمن میں کبھی ابّو چُھپاتے لیتے تھے ہم کو اپنے دامن میں کبھی یوں بھی ہُوا باندھے سبھی نے پیٹ پر پتھر کبھی سب نےگزارہ کر لیا دو چار لقموں پر مگر سب کو محبت کے اثر نے باندھ رکھا تھا ہمیں مٹی کے اُس چھوٹے سے گھر نے باندھ رکھا تھا سبھی اک دوسرے کی چاہتوں میں گھُل کے رہتے تھے غریبی تھی مگر ہم لوگ سب مِل جُل کے رہتے تھے --------------------------------